AGRICULTURE BASED CIVILIZATION OF CIRCLE BAKOTE
Searched and written by
MOHAMMED OBAIDULLAH ALVI
(Journalist, Historian, blogger and Anthropologist)
***********************************
***********************************
Eid festivals
کوہسار میں عیدالفطرمنانے کی اپنی ثقافتی اقدار ہیں
------------------------
نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی ابو وقاصؓ آپ کی حیات ہی میں ٹیکسلا کے راستے کوہسار تشریف لائے تھے۔
----------------
کوہسار میں رمضان المبارک کے بعد عیدالفطر پر نئے کپڑے، نئے ترپڑ (کھسے) اور نئی ململ کی پگڑی کی روایت بھی کافی پرانی ہے
-------------------------
کوہسار میں رمضان المبارک کے بعد عیدالفطر پر نئے کپڑے، نئے ترپڑ (کھسے) اور نئی
ململ کی پگڑی کی روایت بھی کافی پرانی ہے
*********************
کوہسار میں رمضان المبارک کے بعد عیدالفطر پر نئے کپڑے، نئے ترپڑ (کھسے) اور نئی
ململ کی پگڑی کی روایت بھی کافی پرانی ہے
*********************
دنیا میں ہر قوم کے مذہبی، سیاسی، قومی اور سماجی تہوار ہوتے ہیں، مسلمانوں کا مذہبی تہوار عیدین کی صورت میں ہوتا ہے، اس میں سے ایک عید عیدالفطر بھی ہےجو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے رمضان المبارک کے روزہ داروں کیلئے انعام ہے، عالم اسلام کے ہر علاقے میں عیدالفطر نماز عید کی ادئیگی کے بعد اپنی ثقافتی روایات کے مطابق منائی جاتی ہے، کوہسار سرکل بکوٹ، کوہ مری، گلیات اور سرکل لورہ میں بھی اس کے منانے کی اپنی ثقافتی اقدار ہیں، کوہسار میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ ۔۔۔۔۔ مرنے آلا مری غشناں، آیا گیا نا پُہلناں ۔۔۔۔۔۔ اس لئے اس عید پر جہاں عزیز و اقارب کے ہاں ملنے ملانے، ان کی سوئیاں کھانے کا اپنا ایک الگ مزا ہے ۔۔۔۔۔ وہاں ۔۔۔۔۔۔ گائوں اور قصبات میں جن جن گھروں میں اس سال کے دوران فوتیدگی ہوئی ہوتی ہے علاقے کا ہر آدمی اس گھر میں جاتا اور اہلخانہ سے تعزیت کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس موقع پر اکثر اہلخانہ متوفی کے سوگ میں نئے کپڑے بھی نہیں پہنتے اور وہ ہر آنے والے کو چائے پیش کرتے ہیں۔ یہ صورتحال متوفی کے گھر میں تین چار روز جاری رہتی ہپے ۔۔۔۔۔ اور موجودگی کے باوجود اگر کوئی شخص متوفی کے گھر نہ جا سکے تو اس کو بری طرح محسوس کیا جاتا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے گھر بھی ماتم داری پر نا جا کر اس کا بدلہ اتارا جاتا ہے۔
آغا عبدالغفور اپنی کتاب ۔۔۔۔۔ ٹیکسلا کا تہذیبی پس منظر ۔۔۔۔۔ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی ابو وقاصؓ آپ کی حیات ہی میں ٹیکسلا تشریف لائے تھے اور یہاں کے راجہ نے ان کی پذیرائی کی تھی، آپ نے یہاں موضع بوئی گاڑھ کے مقام پر برصغیر کی پہلی مسجد بھی قائم کی، ہندوئوں کے کئی خاندانوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام بھی قبول کیا اور وہ صدیوں اس مسجد کے متولی رہے، یہاں سے فراغت کے بعد آپ کشمیر تشریف لے گئے ان کا راستہ لورہ، تھوبھہ (باڑیاں)، دیول اور کھدر سے دریائے جہلم عبور کر کے براستہ پونچھ کشمیر پہنچے تھے، قدیم ہندو مورخ یہ بھی لکھتے ہیں کہ خطہ کوہسار میں دیول کے کئی ایک کھشتری خاندان بھی ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے، تا ہم یہ معلوم کرنا ابھی باقی ہے کہ ان صحابی رسولْﷺ نے دیول میں کہاں قیام فرمایا، اس وقت ملکوٹ میں راجہ مل کی اولادیں بھی برسر اقتدار تھیں، کیا انہوں نے بھی ان صحابی رسول کا استقبال کیا تھا ۔۔۔۔۔ یہ سوال ابھی حل طلب ہے۔
بارھویں صدی میں حضرت شاہ علی ہمدانُ کشمیر جاتے ہوئے پوٹھہ شریف سے گزرے تھے اور پورا کیٹھوال قبیلہ مشرف بہ اسلام ہوا تھا اور انہوں نے پوٹھہ شریف میں تاریخ کوہسار کی پہلی مسجد بھی تعمیر کی تھی، کیا اچانک کوہسار کی اس برادری نے دین اسلام کا جائزہ لئے بغیر اسے قبول کر لیا ۔۔۔۔۔۔؟ ہر گز نہیں، صحابی رسول حضرت وقاصؓؓ کا یہاں سے گزر کوہسار کو اسلام سے بہرہ ور کر چکا تھا اور غیر مسلم جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے اور جب حضرت شاہ علی ہمدان یہاں پہنچے تو ماحول ان کے استقبال کے منتظر تھا، یہ بھی ثبوت ملتا ہے کہ ۔۔۔۔ آپ نے یہاں مہینوں قیام بھی کیا، آپ نے سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے نو مسلم کیٹھوال قبیلہ کی دینی اور اخلاقی تربیت بھی کی ہو گی اور اس میں لازمی طور پر عیدالفطر کی نماز اور اس کے دیگر تقاضوں کی تکمیل بھی ہوئی گی اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کہ آپ نے ماہ صیام اور اس کے بعد عید کی نماز بھی پڑھائی ہو ۔۔۔۔ بہر کیف جہاں اسلام جاتا ہے اور قرآن کی تجلیات بکھیرتا ہے ۔۔۔۔۔ وہاں کے شام و سحر برکتوں سے تابناک ہو جاتے ہیں۔
کوہسار میں رمضان المبارک کے بعد عیدالفطر پر نئے کپڑے، نئے ترپڑ (کھسے) اور نئی ململ کی پگڑی کی روایت بھی کافی پرانی ہے، وہ عہد کوہسار کے باشندوں کا ایک ایسا عمرانی دور تھا جس میں ہر شخص کا کردار متعین تھا، پاپوش ساز ہر عید پر اہلیان دیہہ کو جوتے فراہم کرنے کے ذمہ دار تھے، زلف تراش ہر ماہ حجامت کرتے تھے، قاصوی برادری کپاس کاشت کرتی تھی اور گائوں کے بڑوں کو ہر عید پر نئے کپڑے فراہم کرنے کی بھی ذمہ دار تھی، اس عہد میں درزی تو تھے مگر وہ ہاتھ پر کپڑے سیتے تھے، مردانہ کپڑے پندرہ جبکہ زنانہ بائیس گز کے ہوتے تھے، سترھویں صدی تک کشمیر کے بزاز ان علاقوں میں کپڑے فراہم کرتے تھے جبکہ اٹھارویں صدی میں ہندو دکانداروں نے اس مارکیٹ پر قبضہ کر لیا اور بارٹر سسٹم(جنس کے بدلے) کپڑے بیچتے تھے، اس عہد میں ایک معاہدہ عمرانی کے تحت کسب کار برادریاں اپنے فرائض سے آگاہ تھیں اور انہیں عید پر کپڑوں، جوتوں اور حجامت کیلئے کہنا نہیں پڑتا تھا بلکہ وہ اپنے کام میں اتنی مستعد تھیں کہ وہ پہلے سے تیار اور اپنی مصنوعات رمضان المبارک کے اوائل سے ہی اہل دیہہ کو فراہم کرنا شروع کر دیتی تھیں ۔۔۔۔۔۔ ان کے عوض یہ برادریاں ہر سال گائوں میں جتنی بھی فصلیں بھی کاشت ہوتی تھیں ان میں سے وہ اپنی بساط میں ہر کھیت سے ایک گٹھا حاصل کرتی تھیں جسے ۔۔۔۔ کھرین یا کھلین ۔۔۔۔۔۔ کہا جاتا تھا، بعض اوقات انہیں ملنے والی کھرین میں غلہ فیوڈل لارڈز سے بھی زیادہ ہو جاتا تھا۔ عید مساجد میں پڑھی جاتی تھی، مولوی صاحب عید کے مسائل بیان کرتے اور اس موقع پر فطرانہ اکٹھا کیا جاتا جس کی شرح عموما بیسویں صدی کی ابتدا میں ایک آنہ تھی، مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کیا جاتا، اس کے بعد نمازی گروپ یا انفرادی صورت میں گائوں کے متوفیین کے گھروں میں جا کر ان کو پرسہ دیتے، ان کے پاس بیٹھتے اور فاتحہ کرتے۔
کوہسار میں رمضان المبارک کے بعد عیدالفطر پر نئے کپڑے، نئے ترپڑ (کھسے) اور نئی ململ کی پگڑی کی روایت بھی کافی پرانی ہے، دیسی مرغی اور اس کا سوپ بھی عید پر مہمانوں کو پیش کیا جاتا، مکئی کی روٹی کی چوری بھی بنائی جاتی اور خوب دلچسپی سے کھائی جاتی، دوسری جنگ عظیم کے بعد جب کوہسار کے برطانوی سپاہی (باوو اور افسر خان) واپس آئے تو اپنے ہمراہ چائے بھی لائے اور اس کے بعد چائے سے بھی مہمانوں کی تواضع کی جانے لگی، پہلی بار اسی وقت چینی کے برتن بھی کوہسار میں متعارف ہوئے، پیالی کو کوہلی اور پلیٹوں کو رکاوی کہا جانے لگا، دوسری جنگ عظیم کے بعد ۔۔۔۔۔ کوہسار میں سبز چائے، حقہ، گیس کا چراغ وغیرہ متعارف ہوئے اور عید کے روز صاحب خانہ مہمانوں کو خصوصی طور پر حقہ ضرور پیش کرتا تھا۔
عید کا چاند سری نگر اور راولپنڈی میں دیکھا جاتا تھا اور پھر پٹاخوں کو پھوڑ کر اس کی منادی کی جاتی تھی، ہر دیہہ کے علمائے کرام ذمہ دار ہوتے تھے کہ وہ ماہ صیام اور عید کے چاند کا اعلان کریں اس مقصد کیلئے بڑے شہروں کے علماء کے ساتھ ان کے رابطے ہوتے تھے اور انہوں نے یہ اصول طے کیا ہوتا تھا کہ سری نگر یا راولپنڈی جہاں بھی چاند نظر آتا وہاں سے پٹاخوں کے ذریعے اس کا اعلان ہو جاتا، سحری اور فطاری کی اذان کی بھی یہ صورت ہوتی کہ مولوی صاحب کی ازان کے ساتھ ہی اسے انجام دیا جاتا، دوسری جنگ عظیم کے بعد کوہسار میں ٹائم پیس بھی متعارف ہوئی اور اس سے افطاری اور سحری کی اذان کا نظام بھی کافی بہتر ہو گیا البتہ ایک اور بات بھی طے شدہ تھی کہ اگر بوہلاں (دب اکبر یا سات ستاروں کی منڈلی) جب تک چمکتی ۔۔۔۔۔ اس وقت تک سحری کھائی جا سکتی تھی ۔۔۔۔ دوسری بات یہ تھی کہ ۔۔۔۔ روزہ اس وقت بھیئ بند کیا جا سکتا تھا جب تک پیہلے (چیونٹیاں) صبح چلتی ہوئی نظر نہ آتیں ۔۔۔۔ مقامی علامائے کرام نے روزہ داروں کو ایک اور سہولت دے رکھی تھی کہ ۔۔۔۔ اگر کوئی شخص سحری میں نہ اٹھ سکے تو جب اس کی آنکھ کھلے تو وہ اپنے دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے ۔۔۔۔ سحری ۔۔۔۔ کر لے اور روزہ رکھ لے ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ قبول کرنے والا ہے ۔
------------------
یہ تحریر 2016 کی عید الفطر پر لکھی گئی جسے روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد نے بھی شائع کیا تھا۔
آغا عبدالغفور اپنی کتاب ۔۔۔۔۔ ٹیکسلا کا تہذیبی پس منظر ۔۔۔۔۔ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی ابو وقاصؓ آپ کی حیات ہی میں ٹیکسلا تشریف لائے تھے اور یہاں کے راجہ نے ان کی پذیرائی کی تھی، آپ نے یہاں موضع بوئی گاڑھ کے مقام پر برصغیر کی پہلی مسجد بھی قائم کی، ہندوئوں کے کئی خاندانوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام بھی قبول کیا اور وہ صدیوں اس مسجد کے متولی رہے، یہاں سے فراغت کے بعد آپ کشمیر تشریف لے گئے ان کا راستہ لورہ، تھوبھہ (باڑیاں)، دیول اور کھدر سے دریائے جہلم عبور کر کے براستہ پونچھ کشمیر پہنچے تھے، قدیم ہندو مورخ یہ بھی لکھتے ہیں کہ خطہ کوہسار میں دیول کے کئی ایک کھشتری خاندان بھی ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے، تا ہم یہ معلوم کرنا ابھی باقی ہے کہ ان صحابی رسولْﷺ نے دیول میں کہاں قیام فرمایا، اس وقت ملکوٹ میں راجہ مل کی اولادیں بھی برسر اقتدار تھیں، کیا انہوں نے بھی ان صحابی رسول کا استقبال کیا تھا ۔۔۔۔۔ یہ سوال ابھی حل طلب ہے۔
بارھویں صدی میں حضرت شاہ علی ہمدانُ کشمیر جاتے ہوئے پوٹھہ شریف سے گزرے تھے اور پورا کیٹھوال قبیلہ مشرف بہ اسلام ہوا تھا اور انہوں نے پوٹھہ شریف میں تاریخ کوہسار کی پہلی مسجد بھی تعمیر کی تھی، کیا اچانک کوہسار کی اس برادری نے دین اسلام کا جائزہ لئے بغیر اسے قبول کر لیا ۔۔۔۔۔۔؟ ہر گز نہیں، صحابی رسول حضرت وقاصؓؓ کا یہاں سے گزر کوہسار کو اسلام سے بہرہ ور کر چکا تھا اور غیر مسلم جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے اور جب حضرت شاہ علی ہمدان یہاں پہنچے تو ماحول ان کے استقبال کے منتظر تھا، یہ بھی ثبوت ملتا ہے کہ ۔۔۔۔ آپ نے یہاں مہینوں قیام بھی کیا، آپ نے سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے نو مسلم کیٹھوال قبیلہ کی دینی اور اخلاقی تربیت بھی کی ہو گی اور اس میں لازمی طور پر عیدالفطر کی نماز اور اس کے دیگر تقاضوں کی تکمیل بھی ہوئی گی اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کہ آپ نے ماہ صیام اور اس کے بعد عید کی نماز بھی پڑھائی ہو ۔۔۔۔ بہر کیف جہاں اسلام جاتا ہے اور قرآن کی تجلیات بکھیرتا ہے ۔۔۔۔۔ وہاں کے شام و سحر برکتوں سے تابناک ہو جاتے ہیں۔
کوہسار میں رمضان المبارک کے بعد عیدالفطر پر نئے کپڑے، نئے ترپڑ (کھسے) اور نئی ململ کی پگڑی کی روایت بھی کافی پرانی ہے، وہ عہد کوہسار کے باشندوں کا ایک ایسا عمرانی دور تھا جس میں ہر شخص کا کردار متعین تھا، پاپوش ساز ہر عید پر اہلیان دیہہ کو جوتے فراہم کرنے کے ذمہ دار تھے، زلف تراش ہر ماہ حجامت کرتے تھے، قاصوی برادری کپاس کاشت کرتی تھی اور گائوں کے بڑوں کو ہر عید پر نئے کپڑے فراہم کرنے کی بھی ذمہ دار تھی، اس عہد میں درزی تو تھے مگر وہ ہاتھ پر کپڑے سیتے تھے، مردانہ کپڑے پندرہ جبکہ زنانہ بائیس گز کے ہوتے تھے، سترھویں صدی تک کشمیر کے بزاز ان علاقوں میں کپڑے فراہم کرتے تھے جبکہ اٹھارویں صدی میں ہندو دکانداروں نے اس مارکیٹ پر قبضہ کر لیا اور بارٹر سسٹم(جنس کے بدلے) کپڑے بیچتے تھے، اس عہد میں ایک معاہدہ عمرانی کے تحت کسب کار برادریاں اپنے فرائض سے آگاہ تھیں اور انہیں عید پر کپڑوں، جوتوں اور حجامت کیلئے کہنا نہیں پڑتا تھا بلکہ وہ اپنے کام میں اتنی مستعد تھیں کہ وہ پہلے سے تیار اور اپنی مصنوعات رمضان المبارک کے اوائل سے ہی اہل دیہہ کو فراہم کرنا شروع کر دیتی تھیں ۔۔۔۔۔۔ ان کے عوض یہ برادریاں ہر سال گائوں میں جتنی بھی فصلیں بھی کاشت ہوتی تھیں ان میں سے وہ اپنی بساط میں ہر کھیت سے ایک گٹھا حاصل کرتی تھیں جسے ۔۔۔۔ کھرین یا کھلین ۔۔۔۔۔۔ کہا جاتا تھا، بعض اوقات انہیں ملنے والی کھرین میں غلہ فیوڈل لارڈز سے بھی زیادہ ہو جاتا تھا۔ عید مساجد میں پڑھی جاتی تھی، مولوی صاحب عید کے مسائل بیان کرتے اور اس موقع پر فطرانہ اکٹھا کیا جاتا جس کی شرح عموما بیسویں صدی کی ابتدا میں ایک آنہ تھی، مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کیا جاتا، اس کے بعد نمازی گروپ یا انفرادی صورت میں گائوں کے متوفیین کے گھروں میں جا کر ان کو پرسہ دیتے، ان کے پاس بیٹھتے اور فاتحہ کرتے۔
کوہسار میں رمضان المبارک کے بعد عیدالفطر پر نئے کپڑے، نئے ترپڑ (کھسے) اور نئی ململ کی پگڑی کی روایت بھی کافی پرانی ہے، دیسی مرغی اور اس کا سوپ بھی عید پر مہمانوں کو پیش کیا جاتا، مکئی کی روٹی کی چوری بھی بنائی جاتی اور خوب دلچسپی سے کھائی جاتی، دوسری جنگ عظیم کے بعد جب کوہسار کے برطانوی سپاہی (باوو اور افسر خان) واپس آئے تو اپنے ہمراہ چائے بھی لائے اور اس کے بعد چائے سے بھی مہمانوں کی تواضع کی جانے لگی، پہلی بار اسی وقت چینی کے برتن بھی کوہسار میں متعارف ہوئے، پیالی کو کوہلی اور پلیٹوں کو رکاوی کہا جانے لگا، دوسری جنگ عظیم کے بعد ۔۔۔۔۔ کوہسار میں سبز چائے، حقہ، گیس کا چراغ وغیرہ متعارف ہوئے اور عید کے روز صاحب خانہ مہمانوں کو خصوصی طور پر حقہ ضرور پیش کرتا تھا۔
عید کا چاند سری نگر اور راولپنڈی میں دیکھا جاتا تھا اور پھر پٹاخوں کو پھوڑ کر اس کی منادی کی جاتی تھی، ہر دیہہ کے علمائے کرام ذمہ دار ہوتے تھے کہ وہ ماہ صیام اور عید کے چاند کا اعلان کریں اس مقصد کیلئے بڑے شہروں کے علماء کے ساتھ ان کے رابطے ہوتے تھے اور انہوں نے یہ اصول طے کیا ہوتا تھا کہ سری نگر یا راولپنڈی جہاں بھی چاند نظر آتا وہاں سے پٹاخوں کے ذریعے اس کا اعلان ہو جاتا، سحری اور فطاری کی اذان کی بھی یہ صورت ہوتی کہ مولوی صاحب کی ازان کے ساتھ ہی اسے انجام دیا جاتا، دوسری جنگ عظیم کے بعد کوہسار میں ٹائم پیس بھی متعارف ہوئی اور اس سے افطاری اور سحری کی اذان کا نظام بھی کافی بہتر ہو گیا البتہ ایک اور بات بھی طے شدہ تھی کہ اگر بوہلاں (دب اکبر یا سات ستاروں کی منڈلی) جب تک چمکتی ۔۔۔۔۔ اس وقت تک سحری کھائی جا سکتی تھی ۔۔۔۔ دوسری بات یہ تھی کہ ۔۔۔۔ روزہ اس وقت بھیئ بند کیا جا سکتا تھا جب تک پیہلے (چیونٹیاں) صبح چلتی ہوئی نظر نہ آتیں ۔۔۔۔ مقامی علامائے کرام نے روزہ داروں کو ایک اور سہولت دے رکھی تھی کہ ۔۔۔۔ اگر کوئی شخص سحری میں نہ اٹھ سکے تو جب اس کی آنکھ کھلے تو وہ اپنے دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے ۔۔۔۔ سحری ۔۔۔۔ کر لے اور روزہ رکھ لے ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ قبول کرنے والا ہے ۔
------------------
یہ تحریر 2016 کی عید الفطر پر لکھی گئی جسے روزنامہ آئینہ جہاں اسلام آباد نے بھی شائع کیا تھا۔
The elders (C+)
بزرگ یا سینیئر سیٹیزنز ہمارے سماج کا ایک
اہم حصہ ہیں ۔۔۔۔ ہمارے دوست مولیا والے آفتاب عباسی انجینئیرنگ
یونیورسٹی پشاور سے 62 سال پورے کرنے کے بعد پنشن ہوئے ہیں ۔۔۔۔ ان کے نانا
جان 115 برس کی عمر میں آج بھی اپنے پوتوں کے پوتوں کے ساتھ زندگی بسر
کرتے ہوئے مولیا سے کوہالہ پیدل آ جا رہے ہیں ۔۔۔۔ ایسے کچھ بزرگوں کا
شمالی سرکل بکوٹ میں بھی پتہ چلا ہے جو ۔۔۔۔ سینچری پوری کرنے کے بعد اس
سرکل بکوٹ کی اخلاقی، تہذیبی اور فکری ماحول کو بدلتا ہوا دیکھ کر ۔۔۔۔ بس
۔۔۔۔۔ ایک آہ بھر رہے ہیں ۔۔۔۔۔؟
یہ بزرگ ۔۔۔۔۔ حاجی ٓصدیق اور عبدالعزیز یو سی بیروٹ کی وی سی کہو شرقی جبکہ سردار مصری خان مولیا، یو سی بکوٹ سے تعلق رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔چوتھے بزرگ مولیا کے روشن خان ہیں، ان کی عمر 115 سال ہے ۔۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دونوں کو ایک صدی دیکھنے، اسے انجوائے کرنے اور اس میں زندگی بسر کرنے کی ہمت عطا کی ہے ۔۔۔۔ دونوں بزرگ صحت کے اعتبار سے ماشااللہ بلکل فٹ اور اس عمر میں بھی کسی پر بوجھ ہیں نہ انہیں کسی سہارے کی ضرورت ہے ۔
یہ بزرگ ۔۔۔۔۔ حاجی ٓصدیق اور عبدالعزیز یو سی بیروٹ کی وی سی کہو شرقی جبکہ سردار مصری خان مولیا، یو سی بکوٹ سے تعلق رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔چوتھے بزرگ مولیا کے روشن خان ہیں، ان کی عمر 115 سال ہے ۔۔۔۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان دونوں کو ایک صدی دیکھنے، اسے انجوائے کرنے اور اس میں زندگی بسر کرنے کی ہمت عطا کی ہے ۔۔۔۔ دونوں بزرگ صحت کے اعتبار سے ماشااللہ بلکل فٹ اور اس عمر میں بھی کسی پر بوجھ ہیں نہ انہیں کسی سہارے کی ضرورت ہے ۔
Watch Video also.........
Water flour mill (Jander) |
Traditional & socio agricultural activities
Grass cutting (Laitri)
....... Grass bringing
Storing ........... After grass cutting (laitri), it called PASSA
Corn plants cutting
Dry corn storing........ It called BAGGA
Dry corn storage (Bagga) covered with plastic sheet during rain and snow fall
Agriculture tools making shop........ This was existed in Circle Bakote late 80s
There are two generations, old and new. In Birote these shops were opreted by late Karam Alahi, father of Abdul Quddos of Maira and late Abd u Laeef of Nawli, Lower Birote.
An ass fall (گداگر) in Circle Bakote
They mostly came from Azad Kashmir
till 1985, now these people washed off
Poultry & Dairy in Circle Bakote
Bohli (بوہلی) A recipe gift of old days
When cattle gave birth and owners prepared this recipe by thick milk and delivered it to all neighbors.
People recieved it and regifted sugar as returned.
**************
Fauna of Circle Bakote
A nest.... ALNA
It is a small size parrot called TOTI, appeared in mid of April
It is a big size parrot called TOTA
Gotari of Circle Bakote
Brown Eagle, called BAZ or LUNDI
Awl is also founded in Circle Bakote
(For more details read this)
Saigh........ This animal defend himself with arrows by his body
Tredali....... This is a harmful fly, injects poison in her enemy body
Nest of this fly
Two kids eyes are swelling by poisonous fly biting
Fatal reptile in Circle BakoteIt called BAKREEN in local Dhundi Language
Flora of Circle Bakote
local citrus fruit
(Only in Kohsar and Azad Kashmir) called JAMBEER
Vagitables
Circle Bakote land also produce MASHROME in wet season Sawan.
It called SUNDEAN in local language
Sweet home
Old styled house under construction, it called پہچھی |
Old styled house that collapsed in Earthquake of 2005.
New type of house is under construction
Mud made water utensils were used before fridge and water coolers.
These had been taken on a wooden stand in courtyards till 1998
This is mud made open kitchen in courtyard..... It still existed, it called AALA.
House with separate animal room, that is started after 1975
Step by step houses, last house for live stocks, it called SERNI
Lantern, that was used for light in Circle Bakote since 1914 to 1983 |
It's light is brighter than a common lantern
since WW II to 1985 in Kohsar
Modern iron local made hearth that save heat and warm house
Traditional mobile mud made hearth
Open air iron hearth
Carocin oil stove is also used in houses, it was introduced during World War II
ویلے نی بےماریاں مکائے آلی
پُولاں
نی گل
*************************************
آسماں را حق بود، گر خوں ببارد بر زمیں (حضرت سعدی شیرازیؒ)*************************************
تحقیق و تحریر
محمد عبیداللہ علوی
صحافی، مورخ، انتھراپالوجسٹ و بلاگر
-----------------------------------------------------------
سرکل بکوٹ کی بیروٹ کے علوی اعوان قبیلہ سمیت اکثر قبائل اور برادریاں کشمیر سے نقل مکانی کر کے آئی ہیں ۔۔۔۔۔ البتہ جدوں، کڑرال کا تعلق کشمیر سے نہیں بلکہ وہ ایران سے افغانستان اور وہاں سے ہزارہ میں آکر آباد ہوئیں اور بعد میں تقریباً دو سقو قبل مسیح میں سرکل بکوٹ میں آ کر رچ بس گئیں ۔۔۔۔۔۔۔
جو قبائل بھی سرکل بکوٹ میں مقبوضہ یا آزاد کشمیر سے کوہسار آئے وہ اپنے ساتھ کئی ایک تہذیبی حوالے سے بھی چیزیں اپنے ساتھ لائے ان میں ۔۔۔۔۔ پاسار (برآمدہ) کے ایک ہی جگہ دو تھم (ستون)، پوستین (چمڑے کی ویسٹ کوٹ) نت (چمڑے کی چٹائی)، باٹ، اوریا، ڈیری فارمنگ کے کھانے (لسی والا ساغ، لسی والے چاول وغیرہ ۔۔۔۔۔ ان سب سے اہم ایک گھاس کی چپل تھی جسے ،،،،، پول ،،،،، کہتے ہیں، اس پول کا اصل وطن تبت ہے اور بدھ راہب (Monks) جب مہاتما بدھ یاترا پر بنارس، انڈیا یا نیپال جاتے ہیں تو آج بھی وہ اس مقدس پاپوش کو اپنے پائوں سے جدا نہیں کرتے ۔۔۔۔ اس پول کی کافی طبی و زرعی فضیلتیں و برکتیں بھی بیان کی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
جہاں ۔۔۔۔۔ پُول بدھ مت میں پائوں کا ایک مقدس پہناوا ہے وہاں ہی اس کے کئی ایک طبی فوائد بھی ہیں ۔۔۔۔۔ 1988ء کے امریکی موقر جریدے National Geographic میں ایک مقالہ شائع ہوا تھا جس میں مقالہ نگار نے کچھ جڑی بوٹیوں کے حوالے سے لکھا تھا کہ ۔۔۔۔ اگر تہائیں (دھان کے خشک پودے کے ٹانڈے (ڈنٹھل) سے بنائی جانے والی پُول میں بہکڑھ یا عک کو بھی شامل کیا جاوے تو یہ کینسر اور ہیپا ٹائیٹس کا بہترین علاج ہے اور پول پہنے ہوئے کوئی سانپ یا زہریلا سورسرنڈھے بھی اپنی بس (زہر) ہمارے جسم کے اندر داخل کر دیں تو وہ بے اثر ہو جاتی ہے یہعنی ویکسین بن جاتی ہے ۔۔۔۔۔ آیوویدک سنیاسی (ہندی طریقہ علاج کے ماہرین) بھی کینسر اور پان روغ (ہیپا ٹائیٹس) میں آج بھی بھارت، نیپال، میانمار، بھوٹان اور تھائی لینڈ میں یہی پُول ریکمنڈ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ سبحان اللہ
سرکل بکوٹ ۔۔۔۔۔۔ میں پول موجودہ پبلک ٹرانسپورٹ سے پہلے وقتوں میں کشمیر جانے اور آنے والے باپاریوں (تاجروں) کا موجودہ سوفٹ سلیپروں سے بھی اچھا پہناوا تھا ۔۔۔۔۔ گرمی کی صورت میں اسے گیلا کیا جاتا تو سر تک پورا جسم ٹھنڈا ٹھار ہو جاتا ۔۔۔۔۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ۔۔۔۔۔ پول ترڑتی (پھسلتی) نہیں تھی ۔۔۔۔۔ کانٹے اس کی وجہ سے پائوں کی تلیوں تک نہیں پہنچ سکتے تھے ۔۔۔۔۔ پھر جسم کے لئے اس کے فوائد بھی علیحدہ تھے ۔۔۔۔۔ ان لوگوں کے پاس منج، انٹوں اور کُرم (چمڑا) کی تجارت کے دوران ایک پول ٹوٹ جاتی تو ان کے پاس کئی ایک جوڑے مزید ہوتے تو دوسرا پہن لیتے ۔۔۔۔۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد اس کا استعمال کافی محدود ہو گیا تھا اور 1980ء تک اسے برفباری کے بعد یا مٹی کی چھتوں کو نیڑھنے (پائوں سے دبانا) رہ گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس چھت نیڑھائی سے برف بہت جلد پگھل جاتی تھی اور تریڑوں والی چھتیں پانی گھر کے اندر پھینکنے سے باز آ جاتی تھیں ۔۔۔۔۔۔ راقم نے بھی قیام بیروٹ کے دوران کئی بار برفباری کے بعد اپنی چھت نیڑھی تھی
کوہسار میں خواتین سمیت ہر گھر کا ہر آدمی ۔۔۔۔۔۔ پول ساز ۔۔۔۔۔۔ ہوا کرتا تھا ،،،،، میرے چچا مولانا محمد حنیف علوی اور میری والدہ مرحومہ بھی ایک گھنٹے میں پول کا جوڑا تیار کر لیتے تھے ۔۔۔۔۔ بدقسمتی یہ ہوئی ہے کہ جب راقم السطور کو تہذیبی، سائنسی و علمی شعور آیا تو میرے یہ بزرگ اور بیروٹ کے قیمتی لوگ دنیا میں نہیں رہے اور گھر کا اناج، غلہ اور پول سازی کی سائنس بھی اپنے ساتھ خلد بریں میں لے گئے اور ۔۔۔۔۔ یوں اس زرعی دور کے زرین عہد کا ۔۔۔۔۔ 1992ء ۔۔۔۔۔ ہمارے ماہرین زراعت گلف کی ریاستوں میں دالر اور ریال کمانے چل پڑے تو ہمارے کھیتر اور باڑیاں ہل چلا کر اناج پیدا کرنے سے بانجھ ہوئے، جبکہ جندروں پر پسوائی کیلئے دانے آنے متروک ہوئے تو کسوں کا پانی تو چلتا رہا مگر اوپر تلے جندر کے گھومنے والے پتھر کے پلٹوں نے چلنے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔۔ دس سال پہلے ایوبیہ کے صحافی طارق نواز عباسی کے والد مرحوم کی وفات پر تعزیت کے بعد براستہ نکر موجوال ۔۔۔۔ جندراں نی ڈھیری ۔۔۔۔۔ سے گزر ہوا۔ پلٹ ایک دوسرے کے اوپر موجود تھے مگر ان پر کھبل جما ہوا تھا، میں 1980 میں پہنچ گیا، میرے بیروٹ کے دوستوں کے ساتھ کنیر میں واٹر سپورٹس انجوائے منٹ یاد کر ایک چیخ سی نکل گئی اور تصدیق ہو گئی کہ فی الواقعی کوہسار سے نامعلوم دور سے یہ جندر اور ان کے دو پلٹ، کھاری، کھڑکنی، درون اور جندرائی کی کھلوں کی بکنگ کا مکمل خاتمہ ہو گیا ۔۔۔۔۔ یہ ہمارا ایسا تہذیبی المیہ (Tragedy) ہے جس پر سوائے سقوط بغداد جیسا حضرت سعدی شیرازیؒ جیسا خون جگر سے نوحہ لکھنے اور اتھروئوں کی جھڑی میں اسے پڑھنے کے سوا کچھ نہیں بچا ہے ۔۔۔۔۔۔ مرے اہل کوہسار دوستو۔۔۔۔؟
آسماں را حق بود، گر خوں ببارد بر زمیں
آبپارہ اسلام آباد میں ایک کشیری دکان سے یہ ،،،،، پول ،،،،، پانچ سو روپے جوڑی ملا کرتی تھی ۔۔۔۔۔ خصوصاً اس امریکی میگزین میں بدھ مت کے اس مقدس ترین پاپوش کی فضیلتیں اور جسمانی برکتیں پڑھ کر اتنا اشتیاق بڑھا کہ ۔۔۔۔۔۔ جب کراچی سے گھر آیا تو آبپارے بھی اس جوتی کو خریدنے اس دکان پر پہنچا تو دکاندار نے بتایا کہ جو بزرگ یہ پُولیں بنایا کرتے تھے ۔۔۔۔ دو برس قبل وہ یہ جہاں چھوڑ کر چلے گئے ہیں ۔۔۔۔۔
---------------------
جمعہ21/دسمبر2018
جو قبائل بھی سرکل بکوٹ میں مقبوضہ یا آزاد کشمیر سے کوہسار آئے وہ اپنے ساتھ کئی ایک تہذیبی حوالے سے بھی چیزیں اپنے ساتھ لائے ان میں ۔۔۔۔۔ پاسار (برآمدہ) کے ایک ہی جگہ دو تھم (ستون)، پوستین (چمڑے کی ویسٹ کوٹ) نت (چمڑے کی چٹائی)، باٹ، اوریا، ڈیری فارمنگ کے کھانے (لسی والا ساغ، لسی والے چاول وغیرہ ۔۔۔۔۔ ان سب سے اہم ایک گھاس کی چپل تھی جسے ،،،،، پول ،،،،، کہتے ہیں، اس پول کا اصل وطن تبت ہے اور بدھ راہب (Monks) جب مہاتما بدھ یاترا پر بنارس، انڈیا یا نیپال جاتے ہیں تو آج بھی وہ اس مقدس پاپوش کو اپنے پائوں سے جدا نہیں کرتے ۔۔۔۔ اس پول کی کافی طبی و زرعی فضیلتیں و برکتیں بھی بیان کی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
جہاں ۔۔۔۔۔ پُول بدھ مت میں پائوں کا ایک مقدس پہناوا ہے وہاں ہی اس کے کئی ایک طبی فوائد بھی ہیں ۔۔۔۔۔ 1988ء کے امریکی موقر جریدے National Geographic میں ایک مقالہ شائع ہوا تھا جس میں مقالہ نگار نے کچھ جڑی بوٹیوں کے حوالے سے لکھا تھا کہ ۔۔۔۔ اگر تہائیں (دھان کے خشک پودے کے ٹانڈے (ڈنٹھل) سے بنائی جانے والی پُول میں بہکڑھ یا عک کو بھی شامل کیا جاوے تو یہ کینسر اور ہیپا ٹائیٹس کا بہترین علاج ہے اور پول پہنے ہوئے کوئی سانپ یا زہریلا سورسرنڈھے بھی اپنی بس (زہر) ہمارے جسم کے اندر داخل کر دیں تو وہ بے اثر ہو جاتی ہے یہعنی ویکسین بن جاتی ہے ۔۔۔۔۔ آیوویدک سنیاسی (ہندی طریقہ علاج کے ماہرین) بھی کینسر اور پان روغ (ہیپا ٹائیٹس) میں آج بھی بھارت، نیپال، میانمار، بھوٹان اور تھائی لینڈ میں یہی پُول ریکمنڈ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ سبحان اللہ
سرکل بکوٹ ۔۔۔۔۔۔ میں پول موجودہ پبلک ٹرانسپورٹ سے پہلے وقتوں میں کشمیر جانے اور آنے والے باپاریوں (تاجروں) کا موجودہ سوفٹ سلیپروں سے بھی اچھا پہناوا تھا ۔۔۔۔۔ گرمی کی صورت میں اسے گیلا کیا جاتا تو سر تک پورا جسم ٹھنڈا ٹھار ہو جاتا ۔۔۔۔۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ۔۔۔۔۔ پول ترڑتی (پھسلتی) نہیں تھی ۔۔۔۔۔ کانٹے اس کی وجہ سے پائوں کی تلیوں تک نہیں پہنچ سکتے تھے ۔۔۔۔۔ پھر جسم کے لئے اس کے فوائد بھی علیحدہ تھے ۔۔۔۔۔ ان لوگوں کے پاس منج، انٹوں اور کُرم (چمڑا) کی تجارت کے دوران ایک پول ٹوٹ جاتی تو ان کے پاس کئی ایک جوڑے مزید ہوتے تو دوسرا پہن لیتے ۔۔۔۔۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد اس کا استعمال کافی محدود ہو گیا تھا اور 1980ء تک اسے برفباری کے بعد یا مٹی کی چھتوں کو نیڑھنے (پائوں سے دبانا) رہ گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس چھت نیڑھائی سے برف بہت جلد پگھل جاتی تھی اور تریڑوں والی چھتیں پانی گھر کے اندر پھینکنے سے باز آ جاتی تھیں ۔۔۔۔۔۔ راقم نے بھی قیام بیروٹ کے دوران کئی بار برفباری کے بعد اپنی چھت نیڑھی تھی
کوہسار میں خواتین سمیت ہر گھر کا ہر آدمی ۔۔۔۔۔۔ پول ساز ۔۔۔۔۔۔ ہوا کرتا تھا ،،،،، میرے چچا مولانا محمد حنیف علوی اور میری والدہ مرحومہ بھی ایک گھنٹے میں پول کا جوڑا تیار کر لیتے تھے ۔۔۔۔۔ بدقسمتی یہ ہوئی ہے کہ جب راقم السطور کو تہذیبی، سائنسی و علمی شعور آیا تو میرے یہ بزرگ اور بیروٹ کے قیمتی لوگ دنیا میں نہیں رہے اور گھر کا اناج، غلہ اور پول سازی کی سائنس بھی اپنے ساتھ خلد بریں میں لے گئے اور ۔۔۔۔۔ یوں اس زرعی دور کے زرین عہد کا ۔۔۔۔۔ 1992ء ۔۔۔۔۔ ہمارے ماہرین زراعت گلف کی ریاستوں میں دالر اور ریال کمانے چل پڑے تو ہمارے کھیتر اور باڑیاں ہل چلا کر اناج پیدا کرنے سے بانجھ ہوئے، جبکہ جندروں پر پسوائی کیلئے دانے آنے متروک ہوئے تو کسوں کا پانی تو چلتا رہا مگر اوپر تلے جندر کے گھومنے والے پتھر کے پلٹوں نے چلنے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔۔ دس سال پہلے ایوبیہ کے صحافی طارق نواز عباسی کے والد مرحوم کی وفات پر تعزیت کے بعد براستہ نکر موجوال ۔۔۔۔ جندراں نی ڈھیری ۔۔۔۔۔ سے گزر ہوا۔ پلٹ ایک دوسرے کے اوپر موجود تھے مگر ان پر کھبل جما ہوا تھا، میں 1980 میں پہنچ گیا، میرے بیروٹ کے دوستوں کے ساتھ کنیر میں واٹر سپورٹس انجوائے منٹ یاد کر ایک چیخ سی نکل گئی اور تصدیق ہو گئی کہ فی الواقعی کوہسار سے نامعلوم دور سے یہ جندر اور ان کے دو پلٹ، کھاری، کھڑکنی، درون اور جندرائی کی کھلوں کی بکنگ کا مکمل خاتمہ ہو گیا ۔۔۔۔۔ یہ ہمارا ایسا تہذیبی المیہ (Tragedy) ہے جس پر سوائے سقوط بغداد جیسا حضرت سعدی شیرازیؒ جیسا خون جگر سے نوحہ لکھنے اور اتھروئوں کی جھڑی میں اسے پڑھنے کے سوا کچھ نہیں بچا ہے ۔۔۔۔۔۔ مرے اہل کوہسار دوستو۔۔۔۔؟
آسماں را حق بود، گر خوں ببارد بر زمیں
آبپارہ اسلام آباد میں ایک کشیری دکان سے یہ ،،،،، پول ،،،،، پانچ سو روپے جوڑی ملا کرتی تھی ۔۔۔۔۔ خصوصاً اس امریکی میگزین میں بدھ مت کے اس مقدس ترین پاپوش کی فضیلتیں اور جسمانی برکتیں پڑھ کر اتنا اشتیاق بڑھا کہ ۔۔۔۔۔۔ جب کراچی سے گھر آیا تو آبپارے بھی اس جوتی کو خریدنے اس دکان پر پہنچا تو دکاندار نے بتایا کہ جو بزرگ یہ پُولیں بنایا کرتے تھے ۔۔۔۔ دو برس قبل وہ یہ جہاں چھوڑ کر چلے گئے ہیں ۔۔۔۔۔
---------------------
جمعہ21/دسمبر2018
Grass Shoe, first human foot wear. This was used in Kohsar till 1980 to melt snow over roof.
Modern Science proved that that shoes are the best treatment of Cancer. It called POOL in our local language. (National Geographic Gen, 1988)
Are you know what is this?............................. It called TRAMCHOORH, a BAILCHA that used only to remove snow outside roof. It is a unused tool for kohsareans because they have iron roofs or lintels but it used in remote areas of western District Abbottabad (not Circle Bakote).
An other kind of TRAMCHOORH
That used in AJK for removing snow upperside of roof
Wedding traditions
Bride in bucket (Doli) leads to her groom house by his close relatives in a procession
Parents ADVICED to their bridal daughter at the time of leaving
that YOUR DEAD BODY SHOULD BE LEFT WHERE YOU ENTER A HOUSE OF YOUR GROOM THIS TIME, as result marriages are mostly successful.
Wedding and Funeral cooking
Natural Wells in Circle Bakote
It is also a natural well but it called CHALAHRI in local language
Hanging natural water fall..... It called NARHA
...... And now... WATER SUPPLY SCHEME by pipeline home to home
Natural Wells with traditions is matter of past
Sports in Circle Bakote
(For more informations read Urdu article related to local sports by M O Alvi)
Five stones (Panj Geeta) domestic girls' game
Cock fighting
(To be continued)
<Next>